نظر کے راستے دل میں اتر جانے کی عادت ہے
مجھے یادوں کے دھاروں میں بکھر جانے کی عادت ہے
ذرا ان سے کہو بنیاد اپنی تھام کر رکھیں
میری وحشت سے دیواروں کو ڈر جانے کی عادت ہے
کہاں ان کی نظر میں دلفریبی راہ کی ساقی
پرندوں کو فقط اپنے ہی گھر جانے کی عادت ہے
کبھی ہاتھوں میں دے کر ہاتھ جن راہوں میں پھرتے تھے
اسے کہنا مجھے اب بھی ادھر جانے کی عادت ہے
میرے الفاظ میں تیری وفا کا ذکر ہے اب بھی
خیالوں کو حقیقت سے مکر جانے کی عادت ہے
فقیہان شہر تم اپنی حدیں پاس ہی رکھو
دل نادان کو حد سے گزر جانے کی عادت ہے
نجانے ان لکیروں میں انہیں کیا جوگ ملتا ہے
میری مٹھی میں تاروں کو ٹھہر جانے کی عادت ہے