نقش آنکھوں سے چہرے کا لگائے ہوئے ہیں
کوئے دل میں تیری یاد بسائے ہوئے ہیں
ذرا مسکراو لَبھوں کو ہلاو
ہم نظریں تُم ہی پر جَمائے ہوئے ہیں
اے ساقی! ہمیں تو پِلا جام الفت
وہ مے خانے میں تیرے آج آئے ہوئے ہیں
مہک آرہی ہے بہت پیاری پیاری
وہ زلفوں کو اپنی سجائے ہوئے ہیں
خبر ہے زمانے کی نہ ہے کوئی پرواہ
ہم تم پہ ہی سب کچھ لٹائے ہوئے ہیں
تیری یاد سے خالی نہ رہا لمحہ کوئی
تنہا بھی آنسو بہائے ہوئے ہیں
صَنم تُم ہِی جھوُٹے پڑو گے سرِحشر
ہم اپنا تو وعدہ نبھائے ہوئے ہیں
تیری خُوش نَصیبی پہ قُربان شاہ میؔر
وہ محفل میں تشریف لائے ہوئے ہیں