نکلے گا محبت کا جنازہ جو کہیں پر
کیا گزرے گی پردیس میں پھر دل کے مکیں پر
چھٹ جائیں گے کچھ روز میں نفرت کے اندھیرے
لکھا ہے مرا نام محبت کی جبیں پر
تنہائی کی راہوں میں مجھے چھوڑ نہ جانا
زندہ ہوں ترے شہر میں اک تیرے یقیں پر
کیا بات ہے مسرور ہیں افلاک کے تارے
ہنستے ہوئے دیکھے ہیں سبھی خاک نشیں پر
اڑتے ہوئے دیکھی ہیں خیالوں میں جو پریاں
ان جیسے نہیں دیکھے کہیں میں نے حسیں "پر"
بہتا ہے شب و روز مرے خواب میں وشمہ
اک درد کا دریا ہے جو پلکوں کی زمیں پر