نگاہوں سے پیالے مے کے جانے کب چھلک جائیں
شرابی رنگ چھلکے تو کہیں نہ بہک جائیں
بہت روکا ہوا ہے ہم نے جذبوں کے تلاطم کو
نگاہوں میں چھپائے بھی ہیں مستی کے عالم کو
دبی سی آگ سینے میں لیے پھرتے ہیں گلشن میں
میسر ہی نہیں یہ آگ پھولوں کو یا شبنم کو
تمہارے روئے تاباں سے نظارے بھی دہک جائیں
شرابی رنگ چھلکے تو کہیں نہ بہک جائیں
شفق نے آج لالی بھی چرالی ہے تیرے لب سے
فضا مدہوش ہے محوِ خراماں تم ہوئے جب سے
ہمارے ہم سفر بن کر چلو راہِ محبت میں
تجھے دل میں سما لیں گے چرالیں گے نظر سب سے
بکیھرو ریشمی زلفیں دل و جاں بھی مہک جائیں
شرابی رنگ چھلکے تو کہیں نہ بہک جائیں