نہ ایسے چھوڑ کے جاؤ کہا نہیں مانا
وہ اپنی ضد پہ ہی قائم رہا نہیں مانا
نہیں پکارا خدا کے سوا کسی اور کو
مرے نصیب برے تھے خدا نہیں مانا
غرور اتنا نہ جانے کہاں سے آ گیا تھا
بہت کی التجا جانِ ادا نہیں مانا
سبھی وہ توڑ گیا سلسلے محبت کے
عدو کا ساتھ دیا بے وفا نہیں مانا
جنونِ عشق میں حد پار کر گیا تھا وہ
رقیب مان گیا دلربا نہیں مانا
وہ ساتھ وقت کے اپنے بدل گیا ہے نہج
جو میرا اپنا تھا ہو کر جدا نہیں مانا
ہوا نہ کچھ بھی اثر را ئگاں ہیں تدبیریں
خدا سے مانگا بہت کی دعا نہیں مانا
وہ بے وفا نہیں تھا جانتا ہوں میں اس کو
نہ جانے کیوں ، کی بہت التجا نہیں مانا
لگانے لگ گیا شہزاد مجھ پہ وہ الزام
تھا دل میں طنطنہ اپنی خطا نہیں مانا