نہ پاس ساقی ہے، پینے کو نہ ہی بادہ ہے
تو اب خدا کو کریں یاد غم بھی زیادہ ہے
سمجھ بھی پاتا وہ دشمن کی چال کو کیسے
مرا رفیق بھی مجھ سا ہی سیدھا سادہ ہے
ٹھہر گئے ہیں یہ چلتے قدم کہاں آ کر
نہ سامنے کوئ منزل ہے نہ ہی جادہ ہے
جیؤں گا لے کے ترا نام یہ رہا وعدہ
میں اپنا وعدہ نبھاؤں گا تجھ سے وعدہ ہے
کبھی جو ہو کے پشیماں وہ ملنے آ جائے
بھلا دوں ساری جفائیں کہ دل کشادہ ہے
پھر اس کی ایک جھلک دیکھنے چلے زاہد
پھر اس کے در پہ ہوں مایوس یہ ارادہ ہے