بے ہنر تھے حُسن والے آج ماہر بن گئے
شریں مزاج کے حکمران زہر بن گئے
لایا وقت عجب تبدیلیاں اِس جہاں میں
گاؤں جو کل تلک تھے وہ شہر بن گئے
سفینے محبت کے ڈبو کے رونے لگا چناب
جذبات اُٹھے اِس قدر کہ لہر بن گئے
بدلے تو بدلے وہ کچھ اِس قدر ہائے!
اپنوں میں شامل تھے پھر غیر بن گئے
آباد تھے تو کوئی دیکھتا نہ تھا محل
اُجڑے تو سبھی کی قابلِ سیر بن گئے
مجبوریوں نے کاٹ دی جب زبان میری
لفظ میرے درد کے پھر شعر بن گئے
اُس کے اشاروں پے زندگی بسر کی میں نے
اُس نے کہا دوپہر تو دوپہر بن گئے
نہال عشق نے چُن چُن کے عاشق مارے
جو جو بچے بیچارے وہ شاعر بن گئے