نہیں یہ آج کی حسرت یہ سال کی ہے

Poet: اےبہ شہزاد By: اےبہ شہزاد, Mailsi

نہیں یہ آج کی حسرت یہ سال کی ہے
رفاقتوں میں تمنا چھپی وصال کی ہے

میں بھول سکتا نہیں خوبرو حسیں چہرہ
کہ بات حسنِ نزاکت ترے جمال کی ہے

خوشی سے کرنے لگا ہوں دھمال اس لیے میں
کمال یار کی قربت لگی کمال کی ہے

سکون سے نہیں سویا بتا رہا ہوں بات
فراق و ہجر میں حسرت رہی وصال کی ہے

چلا گیا ہے بنا پوچھے وہ کسی کے ساتھ
یہ بات ظلم و ستم زنج اور ملال کی ہے

نکال سکتا نہیں زینہارِ دل سے میں
کہ سانس سانس میں خوشبو ترے خیال کی ہے

بنا ہوا ہے زراعت کا مسئلہ شہزاد
وجہ کسی نے بتائی نہیں زوال کی ہے

Rate it:
Views: 107
19 Jun, 2025