نیند بھی تیرے بنا اب تو سزا لگتی ہے
چونک پڑتا ہوں اگر آنکھ ذرا لگتی ہے
فاصلہ قرب بنا قرب بھی ایسا کہ مجھے
دل کی دھڑکن ترے قدموں کی صدا لگتی ہے
دشمن جاں ہی سہی دوست سمجھتا ہوں اسے
بد دعا جس کی مجھے بن کے دعا لگتی ہے
خود اگر نام لوں تیرا تو لرزتا ہے بدن
غیر گر بات کرے چوٹ سوا لگتی ہے
ایسے محبس میں جنم اپنا ہوا ہے کہ مجھے
ہر دریچے سے بڑی سرد ہوا لگتی ہے
طنز آمیز نہیں ہے مرا انداز سخن
تلخ بے شک ہے مگر بات جدا لگتی ہے