واہمے سارے تیرے اپنے ہیں
ہم کہاں تجھ کو بھول سکتے ہیں
میری آنکھوں میں ایک مدت سے
قافلے رتجگوں کے ٹھہرے ہیں
سر برہنہ ہواؤں سے پوچھو
ذائقے ہجرتوں کے کیسے ہیں
بعض اوقات خشک پتے بھی
پاؤں پڑتے ہی چیخ اٹھتے ہیں
عشق کے خوش گمان موسم میں
پتھروں میں گلاب کھلتے ہیں