تمہاری یاد کہ وہ وہ ستم اٹھائے گی
ہمیں کہ سایہء گل میں بھی اب ستائے گی
دکھا نہ دل کسی مظلوم کا کہ اس کی آہ
وجودِ کرب میں آتش فشاں جگائے گی
جو سو رہے ہیں ردا غفلتوں کی اوڑھے ہوئے
انہیں صدائے قیامت ہی اب جگائے گی
کسے خبر تھی کہ سب گلستاں اجاڑے ہوئے
وہ برق لہر بھی میری گلی سے جائے گی
ہر ایک موسمِ گل میں اسی کی یاد نثار
مرے وجود میں ہلچل سدا مچائے گی