وسعت کی کمی بے شمار مانگتی ہے
دوستی تو کوتاہ بس اعتبار مانگتی ہے
سچائی سے ملے گی فرق کیئے بغیر
محبت تو یوں اُدھار مانگتی ہے
اک سوال کیا کہ سائل کا خطاب ملا
اب جواب زندگی بار بار مانگتی ہے
باہر کی رغبت سے لوٹ کر دیکھو
گھر کی چؤدیواری پیار مانگتی ہے
آوارگی کا تو لطف ہی اپنا ہے
کبھی کبھی تنہائی سدھار مانگتی ہے
رفعت کی بلندیوں پر کبھی قدم نہ رکھو
سنتوشؔ منزلت ہمیشہ کردار مانگتی ہے