وفا کی راہ میں یہ تو ضرور ہونا تھا
تیری طلب میں مجھے تجھ سے دور ہونا تھا
فقط خراش سی آئی تھی شیشئہ دل پر
مگر اُسی سے مجھے چُور چُور ہونا تھا
بطورِ زادِ سفر اِک اکیلی جان میری
اور ایسا دشتِ جُدائی عُبُور ہونا تھا
نسیم اپنی انا تم ہی ترک کر دیتے
وہ بے بدل تھا اُسے تو غرور ہونا تھا