چپکے سے لئے ہاتھ میں کنکر نہیں آتی
وُہ لڑکی کئی روز سے چھت پر نہیں آتی
عُمروں کا بھلا ساتھ نبھائے گی وہ کیسے
جو چند قدم سیڑھیاں چڑھ کر نہیں آتی
رات جلتے ہوئے اُس بلب کا مطلب تو یہی ہے
نیند اُس کو بھی میری طرح شب بھر نہیں آتی
نذیر شغل ہے اُس کا بس دستکیں دینا
دروازہ کھلا بھی ہو تو اندر نہیں آتی