وہ اُدھر مان کر نہیں دیتا
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreوہ اُدھر مان کر نہیں دیتا
تُواِدھر مان کر نہیں دیتا
ہو اجازت تو میں چلا جاؤں
تُو اگر مان کر نہیں دیتا
میں نے چا ہا تھا چھوڑ دوں تم کو
دل مگر مان کر نہیں دیتا
جس کے قدموں کی خاک بن کے رہا
وہ قدر مان کر نہیں دیتا
عشق اپنا کسی بھی حالت کو
پُرخطر مان کر نہیں دیتا
روز جاتا ہے اس کے کوچے میں
یہ نڈر مان کر نہیں دیتا
لوگ کہتے ہیں میرے بارے میں
اک نفر مان کر نہیں دیتا
میں نے رو رو کے منتیں کی ہیں
کچھ اثر مان کر نہیں دیتا
جس کا سایہ گھنا نہ ہو اس کو
میں شجر مان کر نہیں دیتا
وہ قمر روز ملنے آتا ہے
یہ قمر مان کر نہیں دیتا
ہے سفر سامنے محبت کا
ہم سفر مان کر نہیں دیتا
یہ خبر اس نے ہی سنائی تھی
جو خبر مان کر نہیں دیتا
اس کا قصہ طویل ہے یارو
مختصر! مان کر نہیں دیتا
اس سے کیا فرق پڑنے والا ہے
شیخ گر مان کر نہیں دیتا
ساقیا سب تری شرارت ہے
مفت بر مان کر نہیں دیتا
شعر پڑھتا ہے وہ فقط میرے
جو ہنر مان کر نہیں دیتا
کیسے ہو گی تری دعا مقبول
تو نذر مان کر نہیں دیتا
پہلے اک دنیا مانتی تھی مجھے
اب یہ گھر مان کر نہیں دیتا
موسیٰ کچھ دیر چپ نہ رہ پائے
اب خضر مان کر نہیں دی
پہلے شیطان رب کا تھا منکر
اب بشر مان کر نہیں دیتا
ہے سفر سامنے محبّت کا
ہم سفر مان کر نہیں دیتا
وہ جو ہوتا ہے شب گزیدہ و سیم
وہ سحر مان کر نہیں دیتا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






