وہ اک معصوم سی لڑکی
جو اڑتی تھی ہوا بن کر
پرندوں کی صدا بن کر
بہاروں کی ادا بن کر
ستارے جسکی آنکھوں میں
سراپا رقص رہتے تھے
تبسم کے حسیں چشمے
جہاں دن رات بہتے تھے
امنگیں جسکی باندی تھیں
حسن تھا پیرہن جسکا
تھے موسم جسکی مٹھی میں
تھا گرویدہ چمن جسکا
ابھی کل اسکو جو دیکھا
سر دامان تنہائی
نہ وہ چہرہ نظر آیا
نہ وہ صورت نظر آئی
نہ وہ ہنسی سنائی دی
نہ وہ مسکاں سجھائی دی
نہ وہ تارے نظر آئے
نہ وہ رم جھم دکھائی دی
وہ آنکھیں جن میں سے دن رات
بس خوشیاں چھلکتی تھیں
وہ لب کہ جنکے ہلنے سے
سبھی کلیاں مہکتی تھیں
وہاںاب ایک حسرت تھی
فقط انجان وحشت تھی
مگر خاموش آنکھوں میں
جو میں نے جھانک کر دیکھا
وہاں اک عکس پھیلا تھا
کسی کا نام لکھا تھا
پھر ان خاموش آنکھوں نے
جو دیکھا غور سے مجھ کو
تو وہ سب ان کہی باتیں
فقط اک پل میں کہہ ڈالیں
اسی پل اک صدا گونجی
کہ جیسے بجلی سی لپکی
تجھے اب کیا پرکھنا ہے
تجھے کب تک پرکھنا ہے
یہ خاموشی تمہارا نام لیتی جاتی ہے پیہم
تجھے اب عمر بھر اس خامشی کا بھرم رکھنا ہے