وہ اگر آتے ہیں منانے کو
میں بھی ہو پھر تیار جانے کو
ماں نے رو کر کہا ہے بیٹی کو
کیوں نہیں جاتی گھر بسانے کو
باپ کی بھی یہی تمنا ہے
تم چلی جاؤ گھر بچانے کو
بھوک سے لوگ مر رہے ہیں اب
پاس کچھ بھی نہیں ہے کھانے کو
آیا بن کر غذاب ہے سیلاب
لو گ ترسے ہیں دانے دانے کو
رہتے ہر وقت ہو پریشاں تم
کس نے روکا ہے مسکرانے کو
ہو گئی ختم شاعری میری
کچھ بچا ہی نہیں سنا نے کو
میرے شہزاد اپنے ہیں دشمن
آئے ہیں لوگ گھر جلانے کو