کیوں نہیں سمجھا ہے رقابت کو
اگ لگ جائے اس محبت کو
فاصلے ہی بڑھا دیے اس نے
کر دیا ہے تنوع چاہت کو
شور و غل پرپا ہر طرف یارو
دیکھنے آئے ہیں جسارت کو
فیصلہ کب ہوا مرے حق میں
جھوٹ بولا گیا عدالت کو
اب زمانہ نہیں شرافت کا
مانتا کون ہے صداقت کو
ساتھ دیتے نہیں ہیں مشکل میں
دوست کافی ہیں اب شرارت کو
زندگی امتحان ہے شہزاد
اس لیے نکلا ہوں عبادت کو