وہ جانتا ہے میں اس پہ مرتا بہت ہوں
کام الٹے سیدھے میں بھی کرتا بہت ہوں
اس شخص نے دیکھو کیسے تنہا کیا مجھے
جو کہتا تھا جدائی سے میں ڈرتا بہت ہوں
مجھ سے انا میں جیت جانے کا کبھی سوچنا بھی نہ
میری جان ! ایسی جنگ میں ، میں لڑتا بہت ہوں
مت پاس آ میرے ، اے آگ کی دیوی
میں لاوا ہوں اور تپش سے ابھرتا بہت ہوں
چلتے تھے فرخ جہاں ہم اک دوسرے کے ساتھ
ان راہوں کو چومتا ہوا میں گزرتا بہت ہوں