وہ خود بھی نہیں اس کی
تصویر بھی نہیں
ایسی تو برے خواب کی
تعبیر بھی نہیں
اب تو ہی بتا مجھ کو
کہ پکاروں تجھے کیسے
کوئی دروازہ ، کوئی دستک
کوئی زنجیر بھی نہیں
جانے کیوں خفا ہے
مجھ سے میرا وجود
جب ناراض میری ذات سے
تقدیر بھی نہیں
بیٹھا ہوں تیری آس میں
اب تو چلے آئو
دیکھو! آج آنے میں
تاخیر بھی نہیں
یہ اثر تو پہلے ہی
کھو چکا تھا شہزاد
شائد میرے الفاظ میں
تاثیر بھی نہیں