محوِ رقص تھا اور تو دل میں بسا تھا
نہ اپنا خیال نہ ہی اپنا پتا تھا
واہ کیا قدرت تھی تیرے حُسن میں
تیری زلفوں میں گلابوں کا نشہ تھا
بہت یاد آتا ہے کبھی کبھی ہمیں
تیری باہوں میں گزرا جو لمحہ تھا
تم کیوں چلے گئے ہمیں چھوڑ کر
نرم سرخ ہونٹوں کا گلہ تھا
چُن لیئے ترے قدموں سے لگے پھول
خوش قسمتی سے ہماری وفاوّوں کا صلہ تھا
وہ روٹھ کے چلے کیا گئے ہم سے جہاں
سوچتا ہوں وفا تھی یا کے دھوکہ تھا