وہ شخص پھرمیرے رو برو تھا، میں قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا
عجیب وحشت سی چار سو تھی اک خوف آنکھوں میں پل رہا تھا
رفاقتوں کے یہ سلسلے بھی اداس راہوں پہ گامزن تھے
ہوا سرہانے کھڑی ہوئی تھی، چراغ کا دم نکل رہا تھا
نہ جانے کیوں آج ریگ جاں میں ہزار چشمے ابل رہے ہیں
سنا ہے کل رات اپنے بستر پہ کوئی کروٹ بدل رہا تھا
وہ میری پلکوں کا اک مسافر جو دامن مہرباں تک آیا
وہ داستاں تھا جو دل کے گوشے میں ایک عرصہ سے پل رہا تھا
کسی کی زلفوں کی قید سے جب مری وفا نے رہائی پائی
تو یوں لگا کہ حصار جاں سے کوئی دھواں سا نکل رہا تھا