وہ عادتآ یہ مسلسل عذاب دیتا ہے
کہ ہر سوال کا مبہم جواب دیتا ہے
وہ محبت کا یقیں اس طرح دلاتا ہے
کہ مرے ہاتھ میں اکثر گلاب دیتا ہے
میں کچھ بھی مانگ لوں دل سے تو مرا رب کریم
وہ مجھ کو دیتا ہے اور بے حساب دیتا ہے
نجانے چاند سے کیوں انس ہورہا ہے مجھے
وگرنہ روشنی تو آفتاب دیتا ہے
وہ سوکھے پھول خود اپنے ہی پاس رکھتا ہے
جب بھی واپس مجھے اپنی کتاب دیتا ہے
یہ مرحلہ بھی محبت میں آگیا شاہد
کہ مجھے اس کی خبر میرا خواب دیتا ہے