مرا خلوص بھی اس کو کبھی دکھائی دے
کبھی تو دل کی صدا اس کو بھی سنائی دے
ہمیشہ وصل کی گھڑیاں کبھی نہیں رہتیں
وہ عشق کیا ہے جو عمروں کی نہ جدائی دے
میں تیرے پیار کا قیدی ہوں حال پوچھ میرا
یا پھر سدا کے لیے قید سے رہائی دے
مجھے تو تیری طلب ہے کچھ اور مانگا نہیں
خدا سے کب یہ کہا ہے مجھے خدائی دے
وکیل میرا ہی جب مل گیا عدو سے مرے
مری بھلا کوئی منصف کو کیا صفائی دے
ہر ایک سمت اندھیرا ہے اور دھند گہری
ہے دور تیرا نگر راہ نہ دکھائی دے
کیوں آدمی کبھی انسان بن نہیں پاتا
جب آدمی کو ہی فطرت میں رب اچھائی دے
زباں سے اپنی تو ظاہر ہوں میں بہت زاہد
دعا ہے رب مجھے دل کی بھی پارسائی دے