وہ لب کشا ہوئے تو ترانہ ہوا
وہ آنکھ اٹھ گئی تو فسانہ ہوا
وہ روبرو ہوئے تو ملا زیست کو قرار
نگاہ نگاہ سے ملی اور دل دیوانہ ہوا
ہوئے قربان لاکھوں دل والے
عجب ان کا یہ مسکرانا ہوا
سب دنیا اس میں ڈُوب چلی ہے
تیری آنکھ ہوئی کہ مے خانہ ہوا
اس کی ہی گلی روز چلے جانا
صدق محبت کا ہی یہ پیمانہ ہوا
دل پریشاں چاک گریباں الجھے بال
کوئی تیرے کوچے سے یوں روانہ ہوا
رہتا تھا اس گلی میں کرو گے یاد کبھی
حیات قیصر بھی اک فسانہ ہوا