وہ لوٹ کر ماضی کا دستوُر ہونا چاہتے ہیں
کچھ لوگ ہمارے درد سے دوُر رہنا چاہتے ہیں
ناکارہ تقدیر کو ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے
ہاں مگر مقدر کا پیچھا ضرور کرنا چاہتے ہیں
شاید تم دُکھ کی وسعتیں ہم ہی سے سیکھ لو
لیکن ناگوار لمحے کہیں کہیں مغرور ہونا چاہتے ہیں
ان اندھیروں میں دیوانگی اور کتنا دوڑے گی
ٹوُٹ کر وہ روگی ابکہ بنوُر ہونا چاہتے ہیں
ہر آنکھ کی نمی سے دلسوزی رکھتے تھے کبھی
ایسے آثار مرض سے چشم بد دوُر رہنا چاہتے ہیں
کسی کا استقلال چھین کر کہاں خوشی پائیں گے
ہم اپنا اپنا چوراستہ عبوُر کرنا چاہتے ہیں