آج شب نیند مے جب وہ بیدار ہوا
اسکی آنکھوں مے رضا خون جگر تار ہوا
اسکی سانسوں کا تسلسل بھی قائم نہ رہا
جب وہ یادوں کے بھنور مے گرفتار ہوا
پوچھ نہ عالم تنہائی مے ہے کیا گزری
چوٹ کھا کر بھی دل ان کا طلبگار ہوا
بات جو دل مے دبی تھی وہ ظاہر ہے ہوئی
تیر پلکوں نے اٹھایا تو غضب دھار ہوا
وہ آئینے کے عکس مے بھی چھپاتا تھا جسے
آج محفل مے وہ مانا کہ اسے پیار ہوا