موج مستی بھی ہے حیرت تو نہیں
روبرو بھی ہے یہ عادت تو نہیں
ختم ہوتی نہیں اداسی مری
قربتِ بھی ہےضرورت تو نہیں
میں نے بے وقت محبت چاہی
اور ترے ساتھ شرارت تو نہیں
کیا ہوا ہے تجھے اپنا کہا ہے
زیست کے ساتھ تجارت تو نہیں
درد جینے کی سزا ہے تو ہے
وہ محبت کی شکایت تو نہیں
اس نے اظہار تمنا کی تھی
غم میں غمگین ہوں حالت تو نہیں
وہ مجھے بھول گیا ہے کیسا
اپنے جیسوں سے نصیحت تو نہیں
اب جو ہے انجا م برا ہے تو
اس سے بڑھ کر تو فضیحت تو نہیں
اب جو بے سمت ہوا ہےکیسا
اورجیسی کوئی صورت تو نہیں
ٹوٹے حسرت کا منارہ تو کوئی
وشمہ ٹوٹے جوشکایت تو نہیں