ہاں وہی شخص جو ہے لعل بھی، مرجان بھی ہے
وہ مرا پیار ، مرا عشق ، مری جان بھی ہے
میں نے کیوں اس کی محبت کا کیا خون اگر
وہ مرے عشق میں پاگل بھی ہے ، ہلکان بھی ہے
تُو نے کل بھی تھا ڈسا موت کا سایہ بن کر
زندگی! تیری طلب آج کا انسان بھی ہے
آؤ دکھلاؤں تجھے شہرِ محبت جس میں
ہجر کا خوف بھی پھیلا ہے تو ویران بھی ہے
کیسے بھولوں میں محبت کی حویلی وشمہ
مرے بچپن کی ثقافت ہے جو ، پہچان بھی ہے