وہ مرے دِل میں اُترنے کا ہنر جانتے ہیں
کون سی بات کا کیا ہوگا اثر جانتے ہیں
توُ ہی نا واقفِ حالِ غمِ دِل ہے ، ورنہ
حالِ غم میرا سبھی نجم و قمر جانتے ہیں
کھو دیا ہم نے جہاں اُن کو ہمیشہ کے لیۓ
وہ گلی دیکھی ہے ہم نے ، وہ ڈگر جانتے ہیں
ایک تاریخ ہے وہ بھوُلے ہوۓ ماضی کی
سب جسے بوڑھا سا برگد کا شجر جانتے ہیں
امتحاں ایک نیا ہوتا ہے ہر رستے پر
زندگی گویا ہے کانٹوں کا سفر ، جانتے ہیں
ہم کو جو کچھ بھی ملا شہرِ وفا میں عذراؔ
ہم اسے اپنی تمنا کا ثمر جانتے ہیں