وہ مرے شہر کی گلیوں میں پھرا کرتا تھا
اس طرح سامنے آنکھوں کے رہا کرتا تھا
توڑ دیتا تھا وہ اس شخص سے ناطہ بالکل
سامنے اس کے مرا جو بھی گلہ کرتا تھا
یوں بھی ہیں میرے عدُو آج مرے شہر کے لوگ
میری خاطر وہ جو ہر اک سے لڑا کرتا تھا
آج حیراں ہوں مجھے اس نے بھلایا کیسے
مجھ سے اک پل جو علیحدہ نہ رہا کرتا تھا
اس طرح مجھ سے کئی لوگ جلا کرتے تھے
وہ بھرے شہر میں جو مجھ سے ملا کرتا تھا
آج کیوں اس کو مری یاد نہیں آتی ہے
خط مجھے اپنے لہُو سے جو لکھا کرتا تھا
کتنی الفت تھی مرے نام سے اس کو باقرؔ
ہر زباں سے ہی مرا نام سنا کرتا تھا