وہ میری طلب میں آیا
تو میں انکار نا کروں گی
مگر اب پاگلوں کی طرح
ُاس کی راہ میں انتظار نا کروں گی
اپنی سب وفایئں میں نے تو لوٹا دی ُاس پر
مگر وہ اک وفا بھی لایا تو میںانکار نا کروں گی
وہ روز چھپ چھپ کے دیکھتا ہیں مجھے
میں بھی دیکھتی ہوں - یہ راز فاش نا کروں گی
وہ گفتگو ں کرنے کی پہل کریں تو سہی لکی
میں کبھی گفتگو ں اختتام نا کروں گی
محبت سے ایک اشک آںکھوں میں میرے لیے لائے تو
وعدہ رہا! آخر موت تک خود کو جدا نا کروں گی