وہ چلمن میں کوئی پھول کلی ہے
سارے شہر میں یہ بات چلی ہے
آج گلزار سے کچھ پھول اٹھا کر
تنہا سرکشی آخر کہاں چلی ہے
نہ ہمسائے ،اور نہ ہی کوئی منزل
دیوانوں کو یہ کیسی راہ ملی ہے
خوشبوءَ ہواؤں سے مل کر گذری
شاید حسرتوں کو کہیں آگ لگی ہے
چلو پہلُو سے ٹکرکے دیکھتے ہیں
ہمارے گذر کی ایک ہی گلی ہے
ملے تو تال سے تال ملاکر سنتوش
یوں کہدوں گا بھی تو علی علی ہے