وہی آہٹیں درو بام پر ، وہی رت جگوں کے عذاب ہیں
وہی ادھ بجھی میری نیند ہے ، وہی ادھ جلے میرے خواب ہیں
میرے سامنے یہ جو خواہشوں کی ہے دھند حدِّ نگاہ تک
پرے اس کے، جانے، حقیقیتں کہ حقیقتوں کے سراب ہیں
میری دسترس میں کبھی تو ہوں جو ہیں گھڑیاں کیف و نشاط کی
ہے یہ کیا، کہ آئیں اِدھر کبھی تو لگے کہ پا بہ رکاب ہیں
کبھی چاہا خود کو سمیٹنا تو بکھر کے اور بھی رہ گیا
ہیں جو کرچی کرچی پڑے ہوئے میرے سامنے میرے خواب ہیں
یہ نہ پوچھ کیسے بسر کیے ، شب و روز کتنے پہر جیے
کسے رات دن کی تمیز تھی ، کسے یاد اتنے حساب ہیں
اُنہیں خوف رسم و رواج کا ، ہمیں وضع اپنی عزیز ہے
وہ روایتوں کی پناہ میں ، ہم انا کے زیرِ عتاب ہیں
ابھی زخمِ نو کا شمار کیا ، ابھی رُت ہے دل کے سنگھار کی
ابھی اور پھوٹیں گی کونپلیں ، ابھی اور کھلنے گلاب ہیں