میری یاد میں روشن وہ نظارہ ہے ابھی تک
وہ رخشنده ستارہ تو تیرا ہی ہے ابھی تک
جس کی ضیا کے آگے ماند پڑه جائے نور سبھی کا
میرے محبوب وہ استعارہ تیرا ہی ہے تو ابھی تک
تاکید کرتے رہے سمجھانے والے ابھی تک
سوہنییاں کود جاتی ہیں چناب میں ابھی تک
اور جو کہتے ہیں کہ عشق صاحبہ کو بھی تھا
وہ کیا جائے عشق صولی پر جھولتا ہے ابھی تک
اپنی تو زندگی تمام ہوئی تیری دہلیز پر ابھی تک
ہمیں تو نے پارس بھی نہ مانا ابھی تک