پتھر تو پتھر وہ پتھر سے بھی خوب تھا
ہاں لکی ہاں وہی جو میرا نصیب تھا
میری خاموشی پر تو پگھل جاتا تھا لیکن
اقرار الفت پر روایا بہت عجیب تھا
وہ کہتا ہے تم مجھے بہت تنگ کرتی ہو
پر جانتا ہے ُاس کے سوا کوئی نا میرے قریب تھا
بات بے بات پر روٹھ جاتا ہے مجھے سے
فطرت میں بچوں کی طرح عجیب تھا
کبھی سمندر بن کر لہروں میں لپیٹ لیتا ہے مجھے
کبھی کنارے کی طرح مجھ سے دور بہت تھا
میری سوچوں میں صبح و شام ذکر ُاس کا ہے
جو ہے تو انسان مگر میرے اندھیرے کے لیے مہتاب تھا
آج میرا ہمسفر بن کر جو پیار سے میرے ساتھ ہے
ہاں وہی شخص کبھی میرا اک خواب تھا