پتھر دیکھائی دیتا ہے

Poet: Amiruddin Amir By: Syed Amirudin Amir, Shahdadpur Sindh

گلی کے موڑ پر اکثر دیکھائی دیتا ہے
وہ آدمی مجھے پتھر دیکھائی دیتا ہے

اٹھا کے کشتیاں کاغذ کی اپنے کاندھے پہ
تھکا تھکا سا سمندر دیکھائی دیتا ہے

کبھی ہو ساز میں ڈھلتا ہے راگنی کی طرح
کبھی ہو ساز کا پیکر دیکھائی دیتا ہے

نہ بچ سکے گا کسی طرح گلستاں اب کے
ہوا کے ہاتھ میں خنجر دیکھائی دیتا ہے

جلے جلے سے مکاں اور لہو لہو سے بدن
نگر نگر یہ ہی منظر دیکھائی دیتا ہے

Rate it:
Views: 694
06 Aug, 2008