گلی کے موڑ پر اکثر دیکھائی دیتا ہے
وہ آدمی مجھے پتھر دیکھائی دیتا ہے
اٹھا کے کشتیاں کاغذ کی اپنے کاندھے پہ
تھکا تھکا سا سمندر دیکھائی دیتا ہے
کبھی ہو ساز میں ڈھلتا ہے راگنی کی طرح
کبھی ہو ساز کا پیکر دیکھائی دیتا ہے
نہ بچ سکے گا کسی طرح گلستاں اب کے
ہوا کے ہاتھ میں خنجر دیکھائی دیتا ہے
جلے جلے سے مکاں اور لہو لہو سے بدن
نگر نگر یہ ہی منظر دیکھائی دیتا ہے