پتھر دیکھائی دیتا ہے
Poet: Amiruddin Amir By: Syed Amirudin Amir, Shahdadpur Sindhگلی کے موڑ پر اکثر دیکھائی دیتا ہے
 وہ آدمی مجھے پتھر دیکھائی دیتا ہے
 
 اٹھا کے کشتیاں کاغذ کی اپنے کاندھے پہ
 تھکا تھکا سا سمندر دیکھائی دیتا ہے
 
 کبھی ہو ساز میں ڈھلتا ہے راگنی کی طرح
 کبھی ہو ساز کا پیکر دیکھائی دیتا ہے
 
 نہ بچ سکے گا کسی طرح گلستاں اب کے
 ہوا کے ہاتھ میں خنجر دیکھائی دیتا ہے
 
 جلے جلے سے مکاں اور لہو لہو سے بدن
 نگر نگر یہ ہی منظر دیکھائی دیتا ہے
More Love / Romantic Poetry






