بیٹھ کے تنہا ویران جگہوں پہ
رہے سوچتے کیوں نہ تجھے پا سکے
اُس کے دل میں بھی نہ جا سکے
اُس کے خیال سے بھی نہ آ سکے
دیکھ کے تجھے سنگ غیروں کے
جسم و جان سارا جل گیا
لاکھ کوششوں کے باوجود
نہ اشک آنکھوں میں چھپا سکے
کر کے اِک مضبوط فیصلہ
جلانے کا ترے خط سارے
خط رکھ کے ترے چولہے پہ
اِک دیا سلائی نہ جلا سکے
خوش فہمیوں کا خیال دیکھو
کہتے رہے وہ میرا ہے
جب وہ آیا نظروں کے سامنے
دے کے آواز نہ بلا سکے
پہلے تھی تجھے پانے کی ضد
پھر تھی تجھے بھلانے کی ضد
ہار ہر بار ہم ہی گئے
نہ پا سکے نہ بھلا سکے
سن کے ہماری داستان
چاند بھی اُکتا گیا
تارے سو گئے کرنیں اُرڑھ کے
ہم نہ خود کو مگر سلا سکے
پتھروں کو کومل کہہ دیا
مدہوش ہو کے عشق میں
نہال وفا کی گرمائی سے
ہم نہ پتھروں کو پگلا سکے