کب اہلِ خرد کی باتوں میں، یاں پَند و نصُوح کے پھُول نہیں
پر عشق ہمارا مسلک ہے، اِک پل دو پل کی بھُول نہیں
ساقی بھی ہے پیمانہ بھی، پھر رِند نہ کیوں بَد مست بھی ہوں؟
مئے خانہ میں عقل کی باتیں ہوں، یہ بات ذرا معقوُل نہیں
ہر ایک ادا کا دِل شاہد، ہر ایک ستم کا یہ ناظر
یاں جھُوٹ ہے نامُمکن گویا، اور ایک سند مجہُول نہیں
وہ دِل جو درد سے خالی ہے، وہ آہ دِکھاوے کی یارو
انبوُہ ریاکاروں کا بہت، پر ایک صدا مقبُول نہیں
سب لوگ یہاں پہ گھائل ہیں، اُس ایک نگاہ کے ترکش سے
ہے کون کہ جو مجروح نہیں، اور کون ہے جو مقتوُل نہیں؟
ہر ایک اُسی کا عاشق ہے، ہر آنکھ اُسی کی طالب ہے
حسرت میں اُس کی روز و شب، اِک ہم ہی یہاں مشغُول نہیں
سرور، خود محبّت ہوتی ہے، یہ من چاہے کا سودا نہیں
اِس کار میں دِل خود فاعل ہے، اور عشق کبھی مَفعُول نہیں