پردہ دل پہ جھلملاتا ہے
دھندلا سا چہرہ یاد آتا ہے
یاس کی تیرگی میں ہر جانب
چاند سا مکھڑا مسکراتا ہے
وہ ہی جینے کا اک سہارا ہے
ورنہ دل ہے کہ اوب جاتا ہے
عشق کی نبض جب پھڑکتی ہے
قلب کا ساز گنگناتا ہے
اس کی یادوں کی شبنمی پاکر
غنچہٴ شوق کھلکھلاتا ہے
شعر گوئی نہیں مری عادت
جذبہٴ عشق کہلواتا ہے
بے خودی میں انھیں بلاتا ہوں
جب قدم میرا لڑکھڑاتا ہے
دل بھی نازک مزاج ہے بے حد
ہلکی ٹھوکر سے ٹوٹ جاتا ہے
پیار کے خستہ جاں مزاروں پر
آنسوٴوں کے دیے جلاتا ہے
کوئی تحفہ نہیں ہے دینے کو
پھول کے بدلے غم چڑھاتا ہے
دیکھتے ہی کوئی حسیں منظر
یاد ماضی کو گدگداتا ہے
کتنا نادان ہے خلیلی بھی
کیسے کیسے وہ گل کھلاتا ہے