کانپ اٹھتی ہوں یہ سوچ کر تنہائی میں
میرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ کوئی آواز کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں ‘ آئے کوئی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
اس کو پا نہ سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے‘ بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی