قیدِ عشق میں ہے معصوم دل کا پنچھی کبھی کبھار آ کے یار ہجر کا دانہ ڈال جاتا ہے دروازہ کھولتا ہے کچھ دیر وہ پنجرے کا اُڑنے لگوں تو ظالم چال پھر کوئی چل جاتا ہے کوئی نہ کوئی تو سمجھائے اُسے آکے پنجرے میں ہی رہے تو مر پنچھی نہال جاتا ہے