پَو پھوٹنے لگی تھی کہ شب دور جب ہوئی
پُروا ذرا سی پاگل و مخمور جب ہوئی
وہ سب حقیقتوں کو ہی بیگانہ کر گئی
ہر بات دل کی باعثِ مخطور جب ہوئی
بے رحم نیند رات کو آتی بھی کس طرح
قاتل ادا یہ صارم و صاقور جب ہوئی
مجھ کو پھر اس کے مول کا اندازہ ہو گیا
یہ آنکھ میری نور سے بے نور جب ہوئی
تعداد مرنے والوں کی معلوم نہ ہوئی
ان کی تجلی عام سرِ طور جب ہوئی
کیسے جئوں اے جعفری قاتل کی یاد ہی
قلب و جگر کے واسطے نا سور جب ہوئی