یہ سہانے سے خواب کس کیلئے
پھر نیا انقلاب کس کے لئے
ہم نے کانٹوں کی تمنا کی ہے
ہاتھ میں پھر گلاب کس کیلئے
چشم ساقی میں دیکھ لو دم بھر
پھر بتانا شراب کس کیلئے
تیری جنت کے ہی مکین تھے ہم
پھر سراپا حجاب کس کیلئے
میرا کچھ ہے ہی نہیں تیرے سوا
پھر حساب و کتاب کس کیلئے
تم کبھی سامنے آؤ تو کہوں
زندگی کا یہ باب کس کیلئے
شام کے دھندلکوں کو کیسے پتہ
دل نے دیکھے سراب کس کیلئے
امیدیں چھین کر پھر رہنے دیا
روح میں اضطراب کس کیلئے