شب کے سینے میں کچھ سمائی ہے
زندگی کا دیا جلائی ہے
میری آنکھوں میں قید ہیں دریا
پھر سمندر کہاں بنائی ہے
بڑھتی جاتی ہے آج تشنہ لبی
اور سانسوں میں جو دبائی ہے
اُس سے ملنے کی اب بھی حسرت ہے
وعدہ کر کے بھی جو رسائی ہے
ہم کو دنیا ، وفا سے کیا لینا
رنگ باتوں سے وہ چرائی ہے
اپنی دنیا کا تم بھرم رکھنا
اس کی دنیا سے اس کو لائی ہے
اس کےمندر نما سے اس دل میں
بت بناتے ہیں پھر گرائی ہے
جب سے جنگل میں آ گئی وشمہ
شہر سارا ہی اب شنا ئی ہے