پھر سے وہ یاد آ گئی ہے کیا
کوئی اُمید دلا گئی ہے کیا
گھر کیوں اتنا سجا ہوا ہے آج
وہ محلّے میں آ گئی ہے کیا
دل تجھے ہوش کیوں نہیں آتا
بے دلی سی بجھا گئی ہے کیا
اے مری جاں، کہاں چلی ہیں آپ
ابھی سے نیند آ گئی ہے کیا
اے مرے خواب تو کیوں ٹوٹ گیا
صبح کی باری آ گئی ہے کیا
شبِ فُرقت بھی سو رہی ہو تم
خُوشی بستر پہ ڈھا گئی ہے کیا
رونی صورت سی کیوں بنائی ہے
یاد اُس کی چبا گئی ہے کیا
اتنے خُوش خُوش کیوں دِکھ رہے ہو جنید
پھر نئی کوئی بھا گئی ہے کیا