پھر ملاقات کی جیسے کہ ضرورت نہ رہی
دل میں یوں آن بسا، دید کی حاجت نہ رہی
شوخیاں بھول گئے عمر کے ڈھلتے ڈھلتے
آنکھ میں ناچتی معصوم شرارت نہ رہی
اس قدر خرچ محافظ کی حفاظت پہ اُٹھا
بچ گیا وہ تو مگراُس کی حکومت نہ رہی
مژدہ ہجر شب وصل وہ دیتا ہی رہا
وصل برپا تو ہوا، لطف و مسرت نہ رہی
محو حیرت ہوں میں جس چیز سے گھن آتی تھی
وہ ضرورت جو بنی، پھر وہ کراہت نہ رہی
آئنہ جھوٹ یہ کہتا ہے کہ اظہر وہ نہیں
عکس میں اُس کی ذرا سی بھی شباہت نہ رہی