پھر کو ئی تا را گرا ہو ، یہ ضر و ری تو نہیں
سو چ کر پھر د ل بر ا ہو ، یہ ضر و ری تو نہیں
یہ تو ممکن ہے کہ کو ئی ا و ر ہو پیشِ نظر
ذ ہن میں بھی د وسرا ہو ، یہ ضرو ری تو نہیں
و یسے تو پھر سے ہمیں ہنسنا سکھا یا و قت نے
ز خمِ د ل بھی بھر گیا ہو ، یہ ضروری تو نہیں
آ نکھ ملنےَ کے لیے کچھ تو بہا نہ چا ہئے
آ نکھ میں کچھ پڑ گیا ہو ، یہ ضروری تو نہیں
اُ س سے و ہ ا چھے مرا سم نہ سہی پر دوستو
ہم بھلے او ر و ہ برُا ہو ، یہ ضروری تو نہیں
طیش میں بیٹھے ہیں جتنا آ پ اُس سے رُوٹھ کر
و ہ بھی اِ تنا ہی خفا ہو ، یہ ضروری تو نہیں
و یسے تو ا بتک تمہا ری راہ تکتی ہے نظر
د ل کو بھی کچھ آ سرا ہو ، یہ ضروری تو نہیں
ایک مصر عے سے جڑا ہو دوسرا مصرعہ کو ئی
ہم و ز ن ہم قا فیہ ہو ،إإإإ یہ ضروری تو نہیں
شا عر ی کیجئے مگر ہر شعر میں ا س شخص کی
بے و فائی کا گلا ہو ، یہ ضروری تو نہیں
اُسکے بارے میں بہت کچھ شاعری میں کہہ دیا
لیکن ہم نے سچ کہا ہو ، یہ ضروری تو نہیں
گرچہ ہم نے آپ سے ترکِ تعلق کر لیا
پر ہمیں اچھا لگا ہو ، یہ ضروری تو نہیں
و یسے تو بیٹھے ہیں انور دوستوں کے درمیاں
دل بھی ا نکا لگ رہا ہو یہ ضروری تو نہیں