پھول سا اک کھلا کھلا نکلا
مسکراتا وہ خوش ادا نکلا
تلخ گو ۔ شوخ ۔ بے ردا چہرہ
شرم سے عاری بے حیا نکلا
برسوں سے جس کو ڈھونڈھتی تھی نظر
شام غم کی جزا عطا نکلا
حسن پر اپنے ہے بہت نازاں
کہہ رہا ہے وہ کج ادا نکلا
آج پورے شباب پر تھا چاند
دکھ گیا خود بخود خفا نکلا
کوشیں لاکھ کیں چھپانے کی
حال دل سارا کہہ گیا نکلا
بات نکلی تھی بے وفائی کی
اڑ گیا کس لئے گلہ نکلا
وجہ ناراضگی تو کچھ بھی نہیں
پھر بھی ہے وہ خغا خفانکلا
دیر سے ڈھونڈھے کچھ خلاؤں میں
ایک معصوم بے صدا نکلا
صاف ستھرا حسن مرا کردار
صاف شفاف آئینہ نکلا
زخم جو روح پر لگا وشمہ
پیار اُس بے وفا سے کیا نکلا