پھول گلشن میں وہ نکھرتا ہے
جو تری یاد سے گزرتا ہے
بھیگے موسم کی آڑ میں دیکھو
زخم شبنم سے ہی نکھرتا ہے
ملتی میں بھی نہیں زمانے سے
وہ بھی ملنے سے مجھ کو ڈرتا ہے
بات کرتا ہے وہ بھی دل کی اگر
میرا تیور بھی تب ابھرتا ہے
اس کی طرزِ فغاں انوکھی ہے
جتنا روتا ہے دل نکھرتا ہے
دل کی حالت کو مت شمار کرو
تیری یادوں سے ہی بہلتا ہے
کل جو لوگوں پہ ظلم ڈھاتا تھا
اپنے سائے سے آج ڈرتا ہے
اس کی عظمت کو سب سلام کرو
حق کی راہوں سے جو گزرتا ہے
تیری یادوں کا اک حسیں نغمہ
میرے ہونٹوں پہ اب مچلتا ہے
غم میں روتے رہیں مگر وشمہ
پیار کرتے ہی دن گزرتا ہے